کراچی: ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی فاروق ستار نے کہا ہے کہ 7 دسمبر کو سندھی کلچر ڈے کے نام پر کراچی کی شاہراہوں پر ہنگامہ آرائی اور بدترین قانون شکنی دیکھنے میں آئی، جس نے ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ کا منظر پیش کیا۔
اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی علی خورشیدی اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والی ریلیوں کے دوران تشدد، سرکاری و نجی املاک کو نقصان، اسلحے کی نمائش، اور ملک مخالف نعرے بازی جیسے واقعات رونما ہوئے، جو انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہیں۔
فاروق ستار کے مطابق 7 دسمبر کے واقعات نے ثابت کیا کہ قانون کو بالکل خاطر میں نہیں لایا گیا۔ پولیس پر حملے ہوئے، شہری زخمی ہوئے اور فائرنگ کے واقعات بھی سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ درج مقدمات میں دہشت گردی، اقدامِ قتل اور دیگر سنگین دفعات شامل ہیں، لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اور عدلیہ کا رویہ نرم دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ رنگے ہاتھوں گرفتار ملزمان کو عدالتوں میں حیران کن رعایت ملی، اور کئی کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا، یہاں تک کہ بعض مقدمات میں عدالت نے خود ملزمان کا دفاع کیا۔ ان کے بقول یہ طرزِ عمل انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ ریلی کے شرکا نے گورنر سندھ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی، ان کی تضحیک کی اور دھمکیاں دیں؛ لیکن اس صورتحال پر حکومتی خاموشی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کیا گیا اور کراچی کے امن کے خلاف کھلی سازش کی گئی۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ شہر میں ایسی سرگرمیاں دوبارہ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی کوشش ہیں۔ انہوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے، ورنہ حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے سندھ ہائیکورٹ سے مطالبہ کیا کہ پورے واقعے کا ازخود نوٹس لیا جائے، ایک کمیشن قائم کیا جائے اور حقائق سامنے لائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص گروہ اور وکلاء کے کچھ عناصر زمینوں پر قبضے اور لسانی بنیادوں پر انتشار پھیلانے میں ملوث ہیں، جن کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔
فاروق ستار نے کہا کہ اگر حکومت نے فوری ایکشن نہ لیا تو یہ صورتحال آئندہ مزید بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ انہوں نے چیئرمین پیپلز پارٹی اور صدر آصف علی زرداری سے بھی اس معاملے پر پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔














