تائیوان: آج جہاں جدید بحری جہاز، کمپاس، نقشے اور جی پی ایس انسان کی سمندری رہنمائی کرتے ہیں، وہیں ایک نئی سائنسی تحقیق نے 30 ہزار سال پرانے انسان کی حیرت انگیز صلاحیتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ انسان قدیم دور میں نہ صرف سمندر کا سفر کرتا تھا بلکہ بغیر کسی جدید ٹیکنالوجی کے سیکڑوں میل کا فاصلہ بھی طے کر لیتا تھا۔
ایک سائنسی تجربے کے دوران ماہرین نے ایک درخت کے تنے سے کشتی بنا کر تائیوان سے جاپان کے یوناگونی جزیرے تک 140 میل طویل خطرناک سمندری سفر کیا۔ یہ راستہ دنیا کے طاقتور ترین سمندری دھاروں میں شمار ہونے والے “کروشیو” کرنٹ سے گزرتا ہے۔
چار مردوں اور ایک عورت پر مشتمل عملے نے 45 گھنٹوں تک سورج اور ستاروں کی روشنی کو بطور رہنما استعمال کرتے ہوئے یہ سفر طے کیا۔ انتہائی تھکا دینے والے اس سفر کے دوران انہیں نہ صرف موسمی خطرات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کشتی بھی آخر میں ڈوب گئی—تاہم عملہ بحفاظت منزل تک پہنچ گیا۔
تحقیق کے سربراہ، یونیورسٹی آف ٹوکیو کے ماہرِ بشریات یوسوکے کیفو کا کہنا تھا کہ “یہ تجربہ نہ صرف ہمارے لیے سیکھنے کا موقع تھا بلکہ اس نے ہمیں یہ سمجھایا کہ ہمارے قدیم آباؤ اجداد کس قدر ہوشیار، باہمت اور مہارت یافتہ تھے۔”
یہ تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ابتدائی انسان صرف سرکنڈے یا بانس کی کشتیوں پر انحصار نہیں کرتا تھا بلکہ وہ قدرتی ذرائع اور سمندری مہارتوں کی مدد سے سمندر جیسے طاقتور دشمن کو بھی شکست دے سکتا تھا۔














