سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیر کو نیپا چورنگی کے قریب گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے والے معصوم بچے ابراہیم کے معاملے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ قائد حزب اختلاف بولنا چاہتے تھے لیکن اجازت نہ ملنے پر ایم کیو ایم کے ارکان نے ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
ایوان کی کارروائی اسپیکر اویس قادر شاہ کی صدارت میں شروع ہوئی، جس میں بچے کے لیے خصوصی دعا بھی کی گئی۔ ایم کیو ایم کے رکن افتخار عالم نے کہا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کراچی کے بچے اس طرح گٹروں میں گر جائیں؟ حکومت ایسے حادثات کے تدارک کے لیے کب اقدامات کرے گی، یہ کھلے مین ہول موت کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔
جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے کہا کہ متعلقہ انتظامیہ اور میئر کراچی نے کوئی جواب نہیں دیا، بی آر ٹی ریڈ لائن پر یہ تیسرا واقعہ ہے، اور اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔
رکن اسمبلی ریحان بندوکڑا نے بچے کی تصویر ایوان میں دکھائی، جسے دیکھ کر کئی ارکان آبدیدہ ہوگئے، خواتین ارکان حنا دستگیر اور ہیر سوہو بھی اپنے آنسو نہیں روک سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بچے کا چہرا مسکراتا ہوا دنیا سے چلا گیا، اور یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ آپ کا بچہ ہوتا تو کیا ہوتا۔
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ یہ ایک انتہائی المناک واقعہ ہے اور ہر شخص غمزدہ ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ جس کسی کی کوتاہی کی وجہ سے حادثہ پیش آیا، اسے سخت سزا دی جائے گی، اور انسانی جان کی حفاظت سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی کو بولنے کی اجازت نہ ملنے پر ایم کیو ایم کے ارکان نے شور مچایا اور بعدازاں واک آؤٹ کر کے ایوان سے چلے گئے۔
ایوان میں توجہ دلاﺅ نوٹس کے دوران ارکان نے مختلف مسائل پر بات کی، جن میں ترقیاتی کاموں کی نگرانی، پارکوں اور ڈرینیج کی صورتحال، اور ماحولیات کے اقدامات شامل تھے۔ اسپیکر نے محکمہ جاتی افسران کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کیا اور چیف سیکریٹری سے وضاحت طلب کی۔
اجلاس بعدازاں منگل دوپہر 12 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔














