Welcome To Qalm-e-Sindh

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: سپریم کورٹ کے فیصلے کو سابق چیف جسٹس نے چیلنج کر دیا!

اسلام آباد: سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ نے ایک بار پھر ملک کے سب سے بڑے عدالتی فورم کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ انہوں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو جائز قرار دینے والے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 7 رکنی آئینی بینچ کا 7 مئی 2025 کا فیصلہ نہ صرف آئینی تقاضوں کے خلاف ہے بلکہ اس سے سویلینز کے بنیادی حقوق اور عدالتی آزادی پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔

درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، اور دیگر فریقین کو شامل کیا گیا ہے۔ جواد ایس خواجہ نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پہلے ہی آرمی ایکٹ کی متنازعہ دفعات کو کالعدم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات میں ملوث سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ لیکن بعد میں آئینی بینچ نے یہ فیصلہ واپس لے کر ایک خطرناک روایت قائم کر دی۔

درخواست گزار نے مزید کہا کہ:

“عدالت نے فیصلے میں جسٹس ایف بی علی کیس سمیت کئی دیگر مقدمات کا غلط حوالہ دیا، جس کی بنیاد پر آئینی اصولوں کو نظرانداز کیا گیا۔”

انہوں نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل واقعی ’’آزاد اور آئینی‘‘ ہوتے تو عدالت پارلیمنٹ کو اپیل کے حق کے لیے قانون سازی کا حکم نہ دیتی۔ یہ تسلیم کرنا کہ اپیل کا قانون ہی موجود نہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ فوجی عدالتیں آزاد عدالتی نظام کے زمرے میں نہیں آتیں۔

سابق چیف جسٹس نے اپنی درخواست میں یہ بھی مؤقف اپنایا کہ:

“اگر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جائز مان لیا گیا، تو اس سے پورا سول عدالتی نظام ایگزیکٹو کے کنٹرول میں جانے کا دروازہ کھل جائے گا۔”انہوں نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، 7 مئی کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور پانچ رکنی بینچ کا آئینی و تاریخی فیصلہ بحال کیا جائے۔

Related Posts