Welcome To Qalm-e-Sindh

دنیا کو چلانے والا “مسٹر گلوبل” کون ہے؟ سابق امریکی عہدیدار کا تہلکہ خیز انکشاف!

امریکہ کے سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں خدمات انجام دینے والی اعلیٰ افسر کیتھرین آسٹن فٹس نے ایک حالیہ انٹرویو میں ایسا دعویٰ کیا ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی باگ ڈور دراصل عالمی لیڈروں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایک خفیہ، بااثر اور پرسرار گروہ کے پاس ہے، جسے وہ “مسٹر گلوبل” کے نام سے یاد کرتی ہیں۔

کیتھرین فٹس کے مطابق یہ گروہ ایک ایسی ذہین کمیٹی ہے جو “بین الابعادی سطح” پر کام کرتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ صرف انسانوں پر مشتمل نہیں بلکہ ایک ایسی طاقت ہے جو دنیا کے بڑے فیصلے کرتی ہے، جبکہ دنیا بھر کے سیاسی رہنما اور حکومتیں محض نمائشی کردار ادا کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ:

“ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں شیطانی ذہانت عالمی نظام پر حاوی ہو رہی ہے، اور انسانوں کو ذہنی و معاشی غلامی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔”

جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کنٹرول

کیتھرین کے مطابق “مسٹر گلوبل” جدید ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، سیٹلائیٹ نگرانی، اور مرکزی بینکوں کی ڈیجیٹل کرنسیوں کے ذریعے انسانی آزادی سلب کر رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سسٹم ایک عالمی آمرانہ نظام کے قیام کی جانب اشارہ کرتا ہے، جس میں عوام کی نگرانی، ان کا ڈیٹا، اور ذہنی رویے مکمل طور پر قابو میں ہوں گے۔

ماضی کے متنازع دعوے

یہ پہلی بار نہیں کہ کیتھرین فٹس نے متنازع بیانات دیے ہوں۔ اس سے قبل وہ دعویٰ کر چکی ہیں کہ:

کووڈ-19 کی وبا دراصل ایک نیا آمرانہ معاشی نظام نافذ کرنے کا ذریعہ تھی

ویکسینز انسانی ڈی این اے میں تبدیلی لا سکتی ہیں

امریکی اشرافیہ کے لیے خفیہ زیرِ زمین بنکرز بنائے جا چکے ہیں

مذہبی حوالہ

کیتھرین نے انجیل مقدس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج انسانیت “خدائی اور شیطانی طاقتوں” کے درمیان ایک بڑے معرکے سے گزر رہی ہے، اور موجودہ عالمی حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ شیطانی ذہانت اس وقت غالب آ چکی ہے۔

تجزیہ اور سوالات

کیتھرین فٹس کے ان بیانات پر عالمی سطح پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ کئی ماہرین انہیں سازشی نظریات قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ حلقے جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشت کے اثرات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ:

کیا واقعی دنیا ایک خفیہ گروہ کے کنٹرول میں ہے؟

کیا ہم آہستہ آہستہ ڈیجیٹل غلامی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟

یا یہ سب ایک فرضی اور غیر سائنسی سازشی بیانیہ ہے؟

مزید تحقیق اور شواہد کے بغیر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں، مگر اس طرح کے بیانات عالمی سیاست اور ٹیکنالوجی کے کردار پر نئے سوالات ضرور اٹھا رہے ہیں۔

Related Posts