Welcome To Qalm-e-Sindh

اسرائیل کا ایران پر بڑا حملہ: جوہری سائنسدان، پاسداران انقلاب کے سربراہ سمیت کئی اعلیٰ شخصیات شہید

مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ایک نئی انتہا کو چھو گئی ہے، جب اسرائیل نے ایران کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کرتے ہوئے جمعہ کی صبح بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے، جن میں ایران کی جوہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ حملوں کے نتیجے میں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، معروف جوہری سائنسدان فرید عباسی، محمد مہدی اور ختم الانبیا ہیڈکوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد شہید ہو گئے، جبکہ سپریم لیڈر کے قریبی مشیر اور محافظ کمانڈر علی شمخانی شدید زخمی ہوئے ہیں۔

ایرانی سرکاری میڈیا اور سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، تہران کے شمالی، مغربی اور وسطی علاقوں میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جبکہ کئی مقامات سے آگ اور دھویں کے بادل اٹھتے دیکھے گئے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فضائیہ کے درجنوں جنگی طیاروں نے اس آپریشن میں حصہ لیا، جس میں ایران کی جوہری افزودگی سے متعلق تنصیبات، بیلسٹک میزائل تیار کرنے والے مراکز اور فوجی کمانڈ سینٹرز کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ان حملوں کو “ایران کی جوہری صلاحیت کو ختم کرنے کے لیے ایک ضروری اقدام” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ ایرانی آمریت کے خلاف ہے، نہ کہ ایرانی عوام کے خلاف۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران جوہری بم بنانے کے دہانے پر تھا، جسے روکنا اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔

ایران نے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے ملک بھر میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا ہے، فضائی دفاعی نظام مکمل طور پر متحرک کر دیا گیا ہے اور امام خمینی بین الاقوامی ایئرپورٹ سمیت تمام ہوائی اڈوں پر پروازیں معطل کر دی گئی ہیں۔ ایران کی فضائی حدود بھی تاحکمِ ثانی بند کر دی گئی ہے۔

ایرانی حکام نے اعلان کیا ہے کہ حملے کا سخت جواب دیا جائے گا، اور جوابی کارروائی کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل میں بھی سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ خطے میں کشیدگی کے باعث عالمی برادری کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ادھر امریکہ نے اسرائیلی حملے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن اس کارروائی میں شامل نہیں، اور ان کی اولین ترجیح خطے میں موجود امریکی افواج کا تحفظ ہے۔

یاد رہے کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق بالواسطہ مذاکرات صرف دو دن بعد شروع ہونے والے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ نہ صرف ان مذاکرات کو متاثر کرے گا بلکہ خطے میں مکمل جنگ کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔

Related Posts