اسرائیلی فوج نے ایک بار پھر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی۔ وسطی غزہ میں خوراک کے لیے قطار میں کھڑے نہتے فلسطینیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 30 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔سول ڈیفنس ترجمان کے مطابق یہ دل دہلا دینے والا واقعہ اُس وقت پیش آیا جب بھوک سے نڈھال فلسطینی خوراک کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ اچانک اسرائیلی فورسز نے فائرنگ شروع کر دی، جس میں خواتین، بزرگ اور کمسن بچے بھی نشانہ بنے۔
واقعے کے بعد اسرائیلی فوج نے نہ صرف رہائشی علاقوں بلکہ بے گھر افراد کے خیموں کو بھی نشانہ بنایا، جس سے مزید 19 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ شہید ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں کمسن شہداء کی لاشیں دکھائی گئیں جنہیں ان کے لواحقین آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کر رہے تھے۔ یہ مناظر عالمی ضمیر کے لیے ایک کھلا سوال بن کر ابھرے ہیں۔
ادھر عرب میڈیا کے مطابق، گزشتہ روز بھی غزہ میں امداد کے منتظر 70 فلسطینیوں کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کیا گیا۔ یوں صرف 24 گھنٹوں کے دوران شہادتوں کی تعداد 89 تک پہنچ چکی ہے۔
عالمی برادری خاموش کیوں؟
ایک بار پھر سوال وہی ہے:
-
کیا غزہ کے بچوں کا خون ارزاں ہے؟
-
کیا بھوک میں کھڑے انسان گولیوں کے مستحق ہیں؟
-
کہاں ہیں وہ عالمی ادارے جو امن کے دعوے کرتے ہیں؟














